تعلقات عامہ دفتر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
February 9, 2023
پریس ریلیز
نوبل انعام سے سرفراز پروفیسر محمد یونس کا جامعہ ملیہ اسلامیہ میں خطاب
شعبہ معاشیات،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے چھے فروری دوہزار تئیس کو منعقدہ نوبل انعام سے سرفراز لیکچر سیریز کے تحت نوبل انعام سے سرفراز اور بنگلہ دیش گرامین بینک کے بنیاد گزار پروفیسر محمد یونس نے افتتاحی خطبہ (آن لائن) ارشاد فرمایا۔ پروگرام کے آغاز میں صدر شعبہ پروفیسر اشریف علیان نے ہندوستان اور بیرون ہندوستان کے مہمانوں اورشرکا خیر مقدم کیا۔انھوں نے کہاکہ آج کا دن تاریخی اور یادگارہے کیوں کہ نوبل انعام سے سرفراز شخصیت کو شعبے میں مدعو کرنے کا دیرینہ خواب آج شرمندہ تعبیر ہورہاہے۔
پروفیسر نجمہ اختر شیخ الجامعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے خطبے میں یونیورسٹی کی حالیہ حصولیابیوں یعنی ناک کی جانب سے اے پلس پلس گریڈ کی یافتگی اور ہندوستان کی سرکردہ یونیورسٹیوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا تیسرے مقام پر (این آئی آرایف دوہزاربائیس) آنے کو اجاگر کیا۔انھوں نے معزز ہستیوں کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مدعو کرنے اور اختراعی پروگرام کے انعقاد کے لیے شعبے کی مساعی کی تعریف کی۔پروفیسر نجمہ نے اپنی تقریر میں پروفیسر محمد یونس کی دنیا بھر میں مائیکروفائنانس،مائیکروکریڈٹ، یونس سوشل بزنس(وائی ایس بی) اور غریبوں کی بہبود کے لیے کی جانے والی خدمات کی اہمیت اور ان کی معنویت پر زور دیا۔
پروفیسر محمد یو نس نے ستر کی دہائی میں اس بنگلہ دیش کی صور ت حال کی وضاحت کی جب بنگلہ دیش غربت،بے روزگاری،بیماریوں،قحط اور اموات سے نبردآزما تھا۔اس وقت انھوں نے فیصلہ کیاکہ کچھ ایسا کریں جس سے غریب عوام کوفائدہ پہنچے اور اس سلسلے میں انھوں نے ایک کام کی شناخت بھی کرلی جو بنیادی طورپر غریبوں کے استحصال اور لگاتار غربت کے لیے اصل ذمہ داربھی تھا یعنی قرض کا دباؤ۔اس کے حل کرنے کے لیے ایک بنکنک نظام کی ضرورت تھی جو کولیٹرل فری ہو اور کاغذات بھی کم لگتے ہوں اسی لیے انھوں نے انیس سو تیراسی میں بنگہ دیش گرامین بینک قائم کیا۔غیر روایتی انداز کے بنکنگ نظام کی پوری دنیامیں بات ہونے لگی۔
پروفیسر یونس نے کہاکہ گزشتہ چالیس برسوں میں گرامین بینکوں میں قرض واپسی کی شرح صد فی صد ہے۔گرامین بینک میں عورتوں کو قرضہ دینے میں ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ معاشی بحران کے حالات میں وہی ہیں جن پر مصیبتوں کو نزلہ ٹوٹتاہے۔امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ا س ماڈل کو کامیابی سے اپنایا گیاہے۔
اخیر میں پروفیسر یونس نے پرسنل انٹریسٹ اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے ہمارے رویے کی طرف سنجیدہ تشویشات کا اظہار کیا۔انھوں نے یہ بھی کہاکہ ہمارے موجودہ معاشی نظام کے لیے بڑھتی ہوئی عالمی حدت،بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور ایک جگہ دولتوں اور سرمایوں کو جمع کرنا ہی ذمہ دار ہیں۔لہذا ہمیں تین صفر کے لیے کام کرنا چاہیے یعنی صفر کاربن اخراج،سرمایہ اور دولت کو بالکل جمع نہ کرنا اور صفر بے روزگاری۔انھوں نے نوجوان شرکا سے اپیل کی کہ وہ پانچ رکنی ٹیم کی ایک تھری زیرو کلب بنائیں۔اس کے بعد یہ سلسلہ ایک نئی تہذیب کو تشکیل دے گا۔اس لیے پروفیسر یونس نے نصیحت کی کہ اس سے پہلے کہ کافی تاخیر ہوجائے ہمیں موجودہ انسانی تہذیب کے ناکام ہونے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس لیے یونیورسٹیاں اور پڑھا لکھا طبقہ اور پالیسی سازکو نئی معاشی ترتیب کو تشکیل دینے میں اہم کردار اد کرنا ہوگاکہ جہاں صرف ذاتی دلچسپی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ہمارے مشترکہ مفادات بھی اہمیت رکھتے ہوں۔انھوں نے اپنا مشہور اقتباس پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر ختم کی کہ ’اگر آپ تصور کرتے ہیں تو وہ ایک دن ہوجاتاہے لیکن اگر آپ تصور ہی نہیں کرتے تو کبھی نہیں ہوتا۔‘
کوآرڈی نیڑ لیکچر سیریز،شعبہ معاشیات،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر بی۔سری نواسوکے اظہار تشکرکے ساتھ پروگرام اختتام پزیر ہوا۔
تعلقات عامہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
No comments:
Post a Comment