Thursday, November 6, 2025

six-day Foundation Day and Talimi Mela at JMI

 پریس ریلیز

Jamia Millia Islamia marks the grand finale of six-day Foundation Day and Talimi Mela with Lieutenant Governor of Delhi, Shri V. K. Saxena as Chief Guest at the Valedictory event


جامعہ ملیہ اسلامیہ نے چھہ روزہ یوم تاسیس اور تعلیمی میلہ کا شان دار اختتام،،الوداعی پروگرام میں عزت مآب لیفٹنٹ گورنر،دہلی شری وی۔کے سکسینہ نے بطو رمہمان خصوصی شرکت کی


عزت مآب لیفٹنٹ گورنر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی این سی سی ونگ کی جانب سے سلامی کے ساتھ ایک سوپانچویں یوم تاسیس تقریبا ت الوداعی پروگرام شرو ع ہوا جس کے بعد سار ا پروگرام انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔جامعہ اسکول ٹیم نے عزت مآب گورنر،دہلی کے استقبال میں جامعہ کا ترانہ نہایت مترنم آواز میں پیش کیا۔اس کے بعد پروفیسر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی،مسجل، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے شری سکسینہ کا استقبال کیا۔

عزت مآب لیفٹنٹ گورنر،دہلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سو پانچ سالہ یوم تاسیس کے تاریخی و خصوصی موقع پر مجھے یہاں آکر بے حد خوشی ہورہی ہے۔یہ خوشی اس لیے بھی ہے کیوں کہ میں ان طلبہ کے درمیان ہوں جن کے کندھے پر اس عظیم ملک کو دنیا کا سرتاج بنانے کا دار و مدار ہے۔ظاہر ہے کہ ایک سو پانچ سالوں کا سفر طے کرکے آج اس منزل پر پہنچنا آسان نہیں رہا ہوگالیکن اس سفر کو کامیابی سے طے کرنے میں ہمارے بزرگوں نے کئی راستے ڈھونڈھے ہوں گے اور تبھی آج ہم اس منزل پر پہنچیں ہیں۔ٹھیک ہی کہا جاتاہے کہ ’ڈھونڈھو گے تو ہی راستے ملیں گے منزلوں کی فطرت ہے کہ وہ خود چل کر نہیں آتیں۔‘مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ آج جس جامعہ میں ہوں اس کے قیام کا تصور بابائے قوم مہاتما گاندھی اور گرودیو ربندر ناتھ ٹیگور نے ایک ایسے ادارے کے طورپر پیش کیا تھا جو تمام کمیو نیٹیز کے طلبہ کو ترقی پسند تعلیم اور قوم پرست نظریہ پیش کرے گا۔اس وقت دیش میں ایسے تعلیمی اداروں کی ضرورت تھی جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ جد وجہد آزادی کا پیغام بھی عوام کے درمیان پھیلا یا جاسکے۔انہوں نے محسوس کیا تھا کہ یہ ادارہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی کردار سازی کر ان کی زندگیوں کو روشن کرنے اور ملک کا مستقبل سنوارنے کاکام کرے گا۔ان ایک سو پانچ برسو ں میں جامعہ کے ایک ایسا مضبوط درخت بن چکی ہے جس کی شاخیں ہر شعبے میں لوگوں کو قابل بنارہی ہے۔اس طرح سے آج یہ ایک مکمل یونیورسٹی بن چکی ہے۔مجھے یہ بتایا گیا کہ ہے آج یہ ملک میں چوتھے نمبر کی اعلی درجے کی یونیورسٹی بن چکی ہے۔یہ دیش کی دوسری یونیورسٹیوں کے لیے بھی ایک مثال ہے۔میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ یہاں پڑھنے والے طلبہ ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں اور ملک کے مستقبل کی تعمیر میں اپنا تعاون دیتے ہیں۔

خواتین و حضراتً! اس جامعہ سے بڑے ہی معزز لوگوں کا نام جڑا ہوا ہے جن میں سے ایک نام مولانا ابو الکلام آزاد صاحب کا بھی ہے۔یہ وہ نام ہے جس نے ملک کو آئی آئی ٹی،آئی آئی ایم،یوجی سی جیسے باوقار ادارے دیے۔یہ بتاتاہے کہ وہ کتنے دور اندیش تھے جب بھی ان کا ذکر ہوتاہے تو ہم دلی کی جامع مسجد پر دیا ان کا وہ خطبہ یاد آتاہے جو انہوں نے تئیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو دیا تھا۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ”ستارے ٹوٹ گئے تو کیا ہوا۔سورج کو چمک رہا ہے۔اس سے کرن مانگ لو، اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دوجہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔میں نے ان کی باتوں کو یہاں اس لیے دہرایا ہے کہ آپ کو اس تعلیم کی روشنی سے اندھیرے کو دور کرنا ہے۔اور یہی پیغام گوشے گوشے میں پھیلانا ہے۔

خواتین و حضرات!مجھے آج یہاں پریہ کہتے ہوئے کوئی گریز نہیں ہے کہ یہاں سے تعلیم یافتہ طلبہ آج مختلف اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔گزشتہ برسوں میں یہاں کے طلبہ کئی نیشنل اور انٹرنیشنل اسکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔یہاں کی کوچنگ سے کئی طلبہ سول سروس جیسے باوقار امتحانات کو پاس کر کے آئی اے ایس،آئی پی ایس بن کر آج ملک کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔اس امتیاز کو حاصل کرنا جامعہ اور یہا ں کے طلبہ کے لیے بڑے ہی فخر کی بات ہے۔مجھے خوشی ہے کہ جامعہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔جامعہ کو اس مقا م پر لانے میں جتنی مشقت یہاں کے تدریسی عملے نے کی ہے اتنی ہی آپ طلبہ کی بھی ہے۔جامعہ ہماری ثقافت اور روایات کا نام ہے۔آج پورے ملک میں اس کا نام پورے احترام اور وقار کے ساتھ لیا جاتاہے۔اب جامعہ ایک قومی یونیورسٹی نہ رہ کر ایک گلوبل کالج ہب بن چکی ہے۔لیکن جامعہ کا سفر یہاں تک محدود نہیں ہے ابھی کافی کچھ اورکرنا باقی ہے۔ اس موقع پر مجھے حفیظ بنارسی کا ایک شعر یاد آتاہے۔انہوں نے کہا تھا؛؎

            چلے چلیں کہ چلنا ہی دلیل کامرانی ہے۔ جو تھک کر بیٹھ جاتے ہیں وہ منزل پا نہیں سکتے

دوستو! تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہونا دو الگ بات ہے۔اس لیے میرا آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ صرف خود ہی تعلیم یافتہ ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کے زیور سے آراستہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔کیوں کہ تعلیم حاصل کرنا حکم خداوندی ہے۔علم کی ہی روشنی سے ہم معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔اور عارف بنتے ہیں۔اس لیے آپ کو اپنے علم کی روشنی نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی قائم رکھنا ہے۔یہی ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے۔آپ اپنی تعلیم کو تبھی مفید بناسکتے ہیں جب آپ خود کو سماج کے لیے مفید بنائیں گے۔آپ کی تعلیم تبھی مفید ہوگی جب آپ اپنے اساتذہ کا احترام کریں اور ان سے سیکھیں گے۔اس موقع پربرج نارائن چکبست کا وہ شعر یاد آتاہے۔؎”ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا۔ وہی شاگرد ہے جو خدمت استاد کی کرتے ہیں۔

خواتین و حضرت!

جیسے کہ آپ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ ہمارے محترم وزیر اعظم شری نریندر مودی جی جو ایک سیاست دا ن سے بھی کہیں زیادہ عظیم تر شخص ہیں۔ان کی قیادت میں کیندر سرکار دیش میں ورلڈ کلاس ایجوکیشنل انفرااسٹرکچر ڈولپ کرنے کی سمت میں تیزی سے کام کررہی ہے۔دیش بھر کے انیک اداروں نے وزیر اعظم کی وژن کے مطابق پچھلے سالوں میں بے مثال ترقی حاصل کی ہے۔لیکن ہمارے اداروں اور یونیورسٹیز کا سفر یہاں تک ہی محدود نہیں ہے ابھی کافی کچھ کرنا باقی ہے۔کسی نے کہا ہے کہ ؎

            علم کی حد ہے کہاں کوئی بتاسکتانہیں۔جیسے دریا کا کنارا کوئی پاسکتا نہیں

            خواتین و حضرات!

میں یہاں پہلے بھی آچکا ہوں اور مجھے ہر مرتبہ یہاں پہلے سے کہیں زیادہ محبت ملی ہے۔اس لیے میں آپ کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔میں آپ کا مشکور ہوں کہ مجھے اس تاریخی موقع پر اپنے درمیان بلایا اور میرا احترام کیا۔مجھے پورا یقین ہے کہ آنے والے وقت میں اور موجودہ خوش حال جامعہ کی رہنمائی میں یہ جامعہ نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔

            آخر میں،میں طالب علم اور اساتذہ کو ان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی طرف سے بہترین خواہشات کا پیش کرتا ہوں اور اپنی باتوں کو چند لفظوں میں ختم کرتا ہوں۔”ہمیں وہ علم کے روشن چراغ ہیں جن کو۔ہوا بجھاتی نہیں سلام کرتی ہے۔

            آج ہمارے سامنے ہدف یہ ہے کہ بیس سو سینتالیس تک ملک کو وکست بھارت بنانے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کریں۔اور اس ارادے سے آگے بڑھیں

پروفیسر مظہر آصف  شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سفر طویل اور غیر معمولی رہا ہے۔انتہائی سادگی سے اس کی شروعات استادوں کے مدرسے کی صورت میں چھ سے سات طالب علموں اور اساتذہ کے ساتھ ہوئی تھیجو اب آٹھ سو سے زیادہ فیکلٹی اراکین اور چوبیس ہزار طلبہ کے ساتھ ایک بڑی اور عظیم الشان یونیورسٹی بن ہوچکی ہے۔ این آئی آر ایف ریننکنگ میں چوتھا مقام حاصل کرنا اور موقر ٹائمز ہائر ایجوکیشن گلوبل میں سب سے بہترین مرکزی یونیورسٹی قرار دیا جانا اس کی غیر معمولی ترقی کا ثبوت ہے۔

پروفیسر آصف نے مزید کہا کہ ’ہمارا مقصد اس وراثت میں توسیع کرکے اضافہ کرنا ہے اور میڈیکل کالج اور اسپتال کے قیام کے لیے پرامید ہیں جس سے جامعہ میں پیش کیے جانے والے کورسس کی وسیع رینج مکمل ہوجائے گی۔ اپنے طلبہ کے لیے اضافی ہاسٹل قائم کرنے کا بھی ہمارا منصوبہ ہے اس کے ساتھ ہی ہم طلبہ کے لیے زیادہ محفوظ کیمپس بنانے کی سمت کام کررہے ہیں۔مین روڈ کے قریب ایک انڈر پاس بھی ہمارے نگاہ میں ہے تاکہ ٹریفک کی نقل وحرکت سہل ہو اور رسائی مزید بہتر ہو۔“  

پروفیسر آصف نے مزید کہاکہ ”اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلیمی میلہ کی قابل ذکر کامیابی،فیکلٹی اراکین کی اور لائبریری کی عطا کردہ بیس ہزار سے زیادہ کتابوں کی تقسیم تھی تاکہ طلبہ میں پڑھنے کی عادت کو تخم ریزی کی جاسکے۔ جامعہ میں طالب علموں کو ہم تعلیم اورتربیت دونوں ہی پڑھاتے اور بتاتے ہیں کیوں کہ جامعہ کی روایت اور ہندوستانی تہذیب و روایت کے پرچم کے علم بردار یہی ہیں۔

یوم تاسیس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ ”یہ پروگرام یونیورسٹی کے لیے انتہائی شان دار رہا۔ہر تہذیبی وثقافتی شام میں طلبہ کی فعال شمولیت کافی حوصلہ افزا رہی۔ایسا احساس ہوا کہ برسو ں میں ایسا جشن اور تہوار نہیں دیکھا۔کیمپس موسیقی، پکوان کے ساتھ زندہ ہوا ٹھااور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ این ای پی کے نفاذ سے لے کر ذہنی صحت اور خوش حالی تک کے مختلف موضوعات پر بامعنی مباحثے منعقد ہوئے۔

پروفیسر آصف نے کہاکہ ’این ای پی میں مذکور ’تعلیم کی یہی فکر ہے کہ جس میں کیمپس کا ہر تجربہ آموزش کو بہتر کرتاہے اور طالب علم کو بہتر اور ہمہ جہت فرد بناتاہے۔تعلیمی میلہ جامعہ کی منفرد تہذیب اور تربیت کو ہمارے طلبہ میں منتقل کرنے کا نام تھا ایسی خصوصیات کو منتقل کرنے کا جو انہیں حقیقی معنوں میں اعلی و ارفع بنادیں۔

پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی،مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ نے آج اختتام پذیر تعلیمی میلہ میں بڑے پیمانے پر شرکت اور اس کی کامیابی کو اجاگر کیا۔انہوں نے کہاکہ ’گزشتہ چھ برسوں میں ہم نے تعلیمی افضلیت، تہذیبی بوقلمونی اور سماجی بیداری کے محاذ پر غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔مختلف ڈپارٹمنٹ،سینٹرز اور فیکلٹی نے اس تقریب کو کامیاب بنانے میں کافی تعاون دیا ہے۔تعلیمی ورکشاپ،خطبات، نمائش  اور مذاکراتی سیشن جنہیں پورے ہفتے کے دوران منعقد کیا تھا۔ان تعلیمی سرگرمیوں نے ہماری دانشورانہ ماحول کو متمول کیا ہے اور اور علم کی ایجاد اور اس کے پھیلاؤ میں ہمارے عہد کو مستحکم کیاہے۔

پروفیسر رضوی نے کہاکہ ’تعلیمی میلہ صرف ایک پروگرام نہیں ہے بلکہ سوسائٹی کی مائیکروکوسم ہے جو زندگی،تعلیم،تہذیب،سماج اور انسانیت کے ہر پہلو کی نمائندگی کرتا ہے۔پکوان اور دست کاری کی مصنوعات سے لے کر کتابوں اور کپڑوں کی سیکڑوں دکانوں تک کیمپس ایک فعال،جان دار ماحول میں تبدیل ہوگیا تھا اور جامعہ کے فلسفہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا یعنی’تعلیم سے تعمیر تک‘۔پروفیسر رضوی نے کہاکہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طویل اور شان دار تاریخ میں اس سال کا تعلیمی میلہ، جتنے بھی تعلیمی میلے  اب تک منعقد ہوئے تھے ان میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے“۔

            پروفیسر رضوی نے تمام متنظمہ کمیٹیوں خاص طور سے ڈین اسٹوڈینٹس ویلفیئر،پروفیسر نیلو فر افضؒ اور ان کی ٹیم فیکلٹی اراکین اور طلبہ،پروکٹوریل ٹیم، صفائی کرمچاریوں،سیکوریٹی گارڈ اور میڈیا ٹیم کو ان کی مطابقت،محنت شاقہ اور باقاعدہ اشتراک کو سراہا اور ان تمام لوگوں کا شکریہ اد اکیا۔

             اس موقع پر عزت مآب لیفٹنٹ گورنر دہلی شری ونے کمار سکسینہ نے  پروفیسر مہتاب عالم رضوی اور پروفیسر ایچ اے ننظمی  بطور مدیران اور پروفیسر مظہر آصف بطور سرپرست کے ساتھ مل کر جامعہ جرنل اآ ف پیس اسٹڈیز، ویسٹ ایشیا سینٹر،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اور ننیسل منڈیلا سینٹر جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ایک ذو لسانی جرنل کوکا اجرا کیا۔

             اس سال کے تعلیمی میلے میں ممتا ز ماہرین،بیوکرویٹس،جج، پالیسی ساز، پبلک انٹلیکچوئل،ماہرین تعلیم  اور مفکرین نے ایک فعال اسٹیج پر ساتھ آئے۔ پروگرام میں تعلیمی، تہذیبی اور کھل کود کی سرگرمیاں بھی ہوئی جس سے جامعہ کمیو نی ٹی کی فعالیت اور تنوع بھی آشکار ہوا۔

            چھ روزہ تقریب کے اختتام کے موقع پر  ہزاروں طلبہ اور فیکلٹی ارکین نے عزت مآب لفٹنٹ گورنر کے سامنے جامعہ کے پرچم کو واپس اتارنے کی تقریب میں شامل ہوئے۔اپنے شاداں و فرحاں روح اور کیمپس میں نئی امنگ اور توانائی سے بھرنے کی وجہ سے یہ تعلیمی میلہ برسہا برس یاد رکھا جائے گا۔

 

 پروفیسر صائمہ سعید

افسر اعلی،تعلقات عامہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ


No comments:

Popular Posts