ڈپارٹمنٹ آف اڈلٹ اینڈ کنٹی نوئنگ ایجوکیشن اینڈ ایکسٹنشن،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بین الاقوامی یوم خواندگی منایا
آٹھ ستمبر کو دنیا بھر میں یوم خواندگی منایا جاتاہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اس تقریب میں جوش اور دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا۔ ڈپارٹمنٹ آف ایڈلٹ اینڈ کنٹی نوئنگ ایجوکیشن ایکسٹینشن (ڈ ی اے سی ای ای) نے اچیونگ ڈیجیٹل لٹریسی۔۔ول سالو دی پرابلم؟ کے عنوان کے تحت جنوبی ایشیا کے مقامی ہب سینٹر اے ایس ای ایم ایل ایل ایل کی طرف سے زوم پر ہندوستانی وقت کے مطابق دوبجے سے تین بجے تک منعقدہ پروگرام میں شرکت کی۔ ڈی اے سی ای ای کی سابق صدر اور خواندگی و ایکٹنشن کی ماہرپروفیسر(ڈاکٹر) شکھاکپور، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پروگرام میں حصہ لیا۔ دوسرے بین الاقوامی ماہرین میں ڈاکٹر جین شیلر، پروفیسر فیڈرل آرمڈ فورسیز یونیورسٹی،ہمیبرگ،جرمنی، ڈاکٹر شالینی سنگھ،جنوبی ایشیا کوآرڈی نیٹر،اے ایس ای ایم ایل ایل ایل ہب اور فورم فار لائف لانگ لرننگ،کوپین ہاگین،ڈنمارک کی بانی ڈائریکٹر نے کم آمدنی والے ممالک جیسے ہندوستان اور زیادہ آمدنی والے ممالک جیسے جرمنی میں ڈیجیٹل خواندگی کے مسائل سے نبرد آزمائی سے متعلق تبادلہ خیال اور گفتگو کی سربراہی کی۔
جامعہ کے آس پاس جھگی جھونپڑیوں پر ان کے کام اور سرکار کی اسکیموں اور پروگراموں کے جائزے پر مبنی پروفیسر شکھا کپور نے بتایا کہ ہندوستان میں ڈیجیٹل خواندگی تک رسائی کیسے ابھی بھی ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے خاص طورسے خواتین،دیہی علاقوں کے لوگوں اور سماج کے پس ماندہ طبقات کے لیے۔ تعلیم بالغاں کے سلسلے میں گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ پر مشتمل ان کی تحقیق اور فیلڈ سرگرمیوں کے جائزے انہوں نے اپنی گفتگو کی بنیاد رکھی۔ اور بتایاکہ ہندوستان میں بڑھتی ڈیجیٹل پسماندگی پر قابوپانے کے لیے بنیادی خواندگی کی ترویج و اشاعت کس طرح تیر بہدف ثابت ہوسکتی ہے۔
ہمبرگ کے ڈاکٹر شیلر نے ڈیجیٹائزیشن سے متعلق اپنی حالیہ تحقیق اور پروجیکٹ سے اعداد و شمار ساجھا کیا اور کہا کہ جرمنی اور یوروپ کے دوسرے کئی ممالک رسائی کے کافی مسائل کو حل کرلیا ہے۔پھر بھی معیاری علم اور مہارت کے میدان میں ڈیجیٹل تقسیم ایک بڑا چیلنج ہے۔مزید برآں انہوں نے روزمرہ کی زندگی کے مختلف حصوں میں متعدد ڈیجیٹائزیشن پر زور دیا جوزیادہ صارف دوست نہیں ہیں اور جس نے متعدد صارفین کو ترقیاتی کاروائیوں کے اصل دھارے سے دور کردیا ہے۔
ڈاکٹرشالینی نے ڈنمارک کے اپنے تجربات ومشاہدات ساجھا کیے اور بڑھتے ہوئے میتھیو ایفیکٹ کو اجاگر کیا جہاں بزرگوں کو ڈیجیٹائزیشن کی رفتار بڑھتے میتھیو ایفیکٹ سے زیادہ ہنرمند کو فائدہ پہنچنے کے ساتھ کم ہنرمند لوگوں کے تعاون کی کمی کے کنارے پڑجانے کو اجاگر کیا۔تعلیم بالغاں کے لیے وسائل کو تیار کرنے سے متعلق اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ جنہیں ڈیجیٹل ٹکنالوجی تک رسائی ہے وہ خواندگی کو عام کرنے کے بجائے ریل کلچر اور دیگر میڈیا کاموں کے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دنیا بھر سے اور جامعہ سے متعدد تعلیمی ہستیوں، ماہرین، ریسر اسکالر اور طلبہ نے پالیسیوں، پرگرواموں اور اقدامات سے قطع نظر ہندوستان میں بے شمار وسائل کے استعمال سے متعلق گفتگو میں حصہ لیا اور بتایا کہ ان اسکیموں اور پروجیکٹوں اور پروگراموں کے نتائج حوصلہ افز انہیں ہیں اور خواندگی اور معیار کی بات کریں تو ابھی بھی کافی پیچھے ہیں۔ کوآرڈی نیٹر اے ایس ای ایم لائف لانگ لرننگ ہب ریجنل سینٹر فار ساؤتھ ایشیا نے بتایا کہ اے ایس ای ایم ایک بین حکومتی تنظیم ہے جس میں یوروپ، ایشیا، یوروپی یونین اور آسیان کے اکیاون ممالک شامل ہیں اور اے ایس ای ایم لائف لانگ لرننگ ہب کا رول عمر بھر سیکھنے کو فروغ دینا ہے۔اس کا جنوبی ایشیاسینٹر خطے سے متعلق مرکوز ہے۔
آئرلینڈ، کورک یونیورسٹی کی عزت مآب اے ایس ای ایم ایل ایل ایل ہب چیئر پروفیسر سیموس او تومانے سب کو شامل کرنے اور اپنے انگوٹھے کا استعمال کرکے ڈیجیٹل آلات کی آموزش میں دوسروں کی معاونت کرنے کی بات کی۔
No comments:
Post a Comment